لطف اللہ کی آپ بیتی | Lutf Allah Ki Ap Beti | Dr. Mubarak Ali
Fiction House
Couldn't load pickup availability
کتاب : "سندھ: خاموشی کی آواز"
\nمصنف : ڈاکٹر مبارک علی
\nسندھ کی تاریخ ھمیشہ سے دو نقطہِ
\nنظر سے لکھی گئی ہے ۔ اول مؤرخ نے حکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کو حکمران کے نقطہِ نظر سے لکھا ہے اور سندھ کی بدقسمتی یہ رہی ہے اس پر غیر ملکی سرمایہ کار قابض رہے اور سندھ کی تاریخ میں سندھ پر حملے کرنے والے ہیرو ابھر کر سامنے آئے ۔
\nدوسرا نقطہِ نظر جو مورخوں نے استمعال کیا وہ ہے قومی نقطہِ نظر۔ اور تاریخ کو محدود وژن دیا۔\nاس کے متعلق ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں،
\n"یہ دونوں راستے تنگ نظری اور محدود وژن کی طرف لے جاتے ہیں۔ تاریخ کی صحیح تشکیل صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب اسے عوامی نقطہِ نظر سے لایا جائے اور انہیں تاریخ میں ان کا صحیح مقام دیا جائے۔"
\nسندھ کی تاریخ میں ہمیشہ غیر ملکی حکمرانوں کا غلبہ رہا ہے۔ سندھ غیر ملکی حملا آوروں کے تحت رہا ہے اور سندھ پر حملے کے بعد آسانی سے اس پر قابض ہوجاتے تھے۔ اور ان حملا آوروں کی کامیابی کی وجہ یہ تھی سندھ کے حکمران عوام سے دور شہروں تک محدود تھے اور ان کا عام عوام سے وابستہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اور اس سبب حملے کی صورت میں کوئی مذاحمت نہیں کرتا تھا۔ سندھ کا جاگیردارانہ معاشرا ہونے کے باعث سندھ کی آبادی کو حکومت میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا اور اگر وہ اس کے خلاف بغاوت کرتے تو ان بغاوتوں کو کچل دیا جاتا تھا۔\nغیر ملکی حملا آوروں کی فہرستوں سے پہلے سندھ میں بادشاہت کا نظام تھا اور اس نظام کا سرپرست بادشاہ یا راجہ ہؤا کرتا تھا۔ سندھ میں عربوں سے پہلے رائے اور برہمن خاندانوں نے حکومت کی۔ عربوں سے پہلے سندھ میں بدھ مذہب مقبول تھا۔ عربوں کے حملے کے وقت سندھ کا حکمران برہمن خاندان کا راجہ داہر تھا۔ مسلمان مؤرخ لکھتے ہیں کہ ٹھٹہ کے قریب دیبل کے بندرگاہ پر راجہ داہر کے لوٹیرون نے عرب کے ایک جہاز کو لوٹا، عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔ اور اس دوران ایک لڑکی نے حجاج بن یوسف سے مدد کی فریاد کی۔ جس کے نتیجے میں حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو فوج کے ساتھ سندھ پر حملے کے لیے بھیجا۔ راجہ داہر کو شکست دے کر عربوں نے سندھ پر قبضہ کر لیا۔ حجاج بن یوسف کی وفات کے بعد سلیمان عبدالملک نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر لیا۔ فتح کے بعد عربوں نے خوب مال غنیمت حاصل کی، عام لوگوں کو غلام بنایا۔ 712 میں سندھ میں عربوں کے حکمرانی شروع ہوئی۔ عربوں کے بعد سندھ میں مختلف مقامات پر بغاوتیں ہوئیں اور اس کے ردعمل میں عربوں نے طاقت کے استعمال سے انہیں ختم کیا۔ مسلسل جنگوں کی وجہ سے سندھ کا معاشرا بدنظمی کا شکار رہا۔\nعربوں کے بعد غوریوں نے سندھ پر گیارویں صدی کے اوائل میں حملا کیا۔ جس کے نتیجے میں سندھ پر غوریوں کی حکومت رہی۔ ناصر الدین قباچہ کو اوچھ اور ملتان کا گورنر مقرر کیا گیا جو کہ سندھ کے ماتحت تھے۔ناصر الدین قباچہ نے سندھ پر 22 سال تک حکومت کی اور اس دور میں سندھ اور وسط ایشیا کے درمیان تعلقات بڑہے۔
\nبرصغیر میں مغلیہ سلطنت کا دور شروع ہوا تو مغلوں نے ہندوستان کی تمام چھوٹے چھوٹے خودمختار ریاستوں کو مغل سلطنت میں شامل کیا۔ بابر نے 1507 میں کابل پر قبضہ کیا تو وہاں کا حکمران شاہ بیگ ارغون سندھ آ کر اپنی نئی حکومت قائم کی۔ ارغونوں کے بعد سندھ پر مغلوں کا قبضہ دو حصوں میں ہوا، بکھر کا علاقہ مغل سلطنت میں شامل ہوا اور پھر ٹھٹہ پر قبضہ کیا گیا۔ ان کا یہ قبضہ 1591 سے لے کر 1739 تک رہا۔
\nفتح کے بعد اس ریاست کی عوام اور نظامِ کو سنبھالنا درحقیقت مشکل ہے۔ مغلوں کے جو ناظم اور گورنر سندھ آئے انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور عام عوام پر ظلم ڈھاہے۔ سندھ چونکہ سلطنت سے ایک طرف تھی تو اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور جو عہدے دار سندھ آئے وہ نہ تجربہ کار تھے۔ اس نتیجے میں سندھ کی معاشی و سیاسی صورتحال بگڑتی رہی اور طاقت کے زور پر زمیندار اور جاگیر داروں نے زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ سندھ بدامنی کا شکار رہا ان اندرونی جھگڑوں اور سندھ سے مغلوں کو کوئی فوائد نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کو رضاکارانہ طور پر کلہوڑو کو دے کر چلے گئے۔
\nچونکہ سندھ پر غیر ملکی حکمران قابض رہے ہے اور کلہوڑو نے نہ سیاسی ترض سے اقتدار میں آئے نہ ہی جنگی لحاظ سے اسی لیے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنا شجرہ عباس سے ملایا کیونکہ برصغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح عرب وسط ایشیا اور افغانستان سے آنے والوں کی یہاں بھی زیادہ عزت دی جاتی ہے جب کہ مقامی لوگوں کو ان کے مقابلہ حقیر سمجھا جاتا تھا۔ کلہوڑو نے افغان حملوں کی خلاف ورزی نہیں کی جس کے باعث افغانوں کی لوٹ مار برابر رہی۔
\nکلہوڑو کے دور میں انگریزوں نے اپنی دوسری تجارتی کوٹھی قائم کی تھی، اور انگریزوں کا تجارتی مرکز اتنا بڑھ چکا تھا کہ اٹھارھویں صدی کے آخر تک اس انڈیا کمپنی ہندوستان میں سیاسی اقتدار مستحکم کر چکی تھی۔افغانوں کی حملوں کی وجہ سے انگریز خوف میدے کی ان کی وجہ سے ان کا تجارتی مراکز بند ہو سکتا ہے۔ان حملوں کو روکنے کے لیے انگریزوں نے منصوبہ بندی شروع کی اور برصغیر میں جتنی بھی خودمختیار ریاستیں تھیں ان پر قبضہ کیا۔
\nسندھ کے مسلمان گاؤں اور دیہاتوں تک محدود تھے اور ان کے برعکس ہندو کاروباری اور تاجر تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فسادات شروع ہوئے جس کا فائدہ انگریزوں کو ہؤا۔ سندھ میں بدامنی اور بدنظمی کی وجہ سے 1843 میں سندھ پر قبضہ کیا۔ اس کتاب میں سندھ کے مختلف خاص شہروں کا ذکر ہے اور اہم تجارتی مراکز کا زکر ہے جن کو بعد میں انگریزوں نے قبضہ کیا ، دیبل بندرگاہ لاری بندرگاہ سہون اور عمرکوٹ۔
\nمسلسل غیر ملکیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد سندھیوں کو احساس ہوا کہ وہ ایک خودمختیار قوم ہیں اور ان میں قوم پرستی کا جذبات ظاہر ہوئے۔ مگر پاکستان کی آزادی کے بعد سندھ کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور قوم پرستی کا دوسرا رخ تب آیا جب ملک میں سندھیوں اور مہاجروں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔
\nآج ہمیں غیر ملکیوں کے حملوں کا خطرہ نہیں ہے مگر سامراج اب سیاسی اقتدار پر قبضہ سامنے سے نہیں کرتا بلکہ اقتصادی و معاشی ذرائع پر قبضہ ہو کر سیاسی اداروں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور اپنے مفادات کے تحت حکمران طبقوں کو استعمال کرتا ہے۔
\nعوام کو باشعور بنانے میں تاریخ اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ تاریخ ایسا علم ہےجو ناصرف آگہی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ اسے سبق بھی سیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تاریخ کو عوام کے نقطہ نظر سے لکھا جائے۔
- Share your shipping policy
- Share your packaging details
